سنوسی تحریک دور زوال میں امت مسلمہ کی حالت زار ,Sanusi Movement, The plight of the Muslim Ummah in the long decline

 


 Sanusi Movement سنوسی تحریک

The founder of Tehreek Sanusi, Seyyed Muhammad bin Ali

دور  زوال میں امت مسلمہ کی حالت زار

The plight of the Muslim Ummah in the long decline

بقول مولانا  سید ابوالحسن علی ندوی

According to Maulana Syed Abul Hasan Ali Nadvi

          اسلام وہ واحد مذہب ہے جو اپنے قلب و جگر اور اعصاب پر انتہائی مہلک و تباہ کن حملوں کے باوجوداپنی اصل شکل میں  قائم  رہا

Islam is the only religion which remained in its original form despite the most deadly and devastating attacks on its center and nerves.

 اور اپنے  سب حریفوں  کو شکست دی جبکہ کوئی دوسرا مذہب اس سے کم درجے کے حملوں کی تاب نہ لاسکا اور اپنی ہستی  

And defeated all its rivals, while no other religion could withstand lesser attacks and lost its identity.کو گم کردیا۔

کبھی کبھی یوں محسوس ہونے لگا کہ شاید اسلام ان حملوں کی تاب نہ لا کر ان کے سامنے سپر ڈال دے  لیکن بعون

 اللہ ایسے عظیم رجال کار پیدا ہوئے جو دین اسلام زندہ و جاوید کو اخلاص اور عشق و محبت کی عظیم قربانیوں سے خالص و تر و تازہ کر گئے 

Sometimes it was felt that maybe Islam could not bear these attacks and put super in front of them, but Baaoon  May Allah give birth to such great men who purified and refreshed the religion of Islam with great sacrifices of sincerity and love.

اخلاص و محبت اور جاں نثاری و قربانی کا سلسلہ

Sincerity, love, self-sacrifice and sacrifice

 صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم سے شروع ہونے والے اس سلسلے کی کڑیاں؛

٭ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ سے لے کر

ابن تیمیہ رحمتہ اللہ تک

٭حضرت مجدد الف ثانی سے لے کر شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمتہ اللہ تک۔

٭شمالی افریقہ میں محمد بن علی السنوسی رحمتہ اللہ کی تحریک سنوسی سے مصر قطب شہید رحمتہ اللہ تک۔

  ٭جہاد افغانستان میں تحریک مجا ہدین و تحریک طالبان کی لازوال قربانیوں سے سر زمین انبیاء و قبلہ اول میں حالیہ معرکہ حق و باطل میں حماس کے مقدس ترین وجود اور غزہ و فلسطین کے عزم و استقلال اور غیرت ایمانی و توکل علی اللہ کی عظیم داستان و شہادت تک۔

گویا ایک مجدد کا چراغ دوسرے مجدد کو،ایک تحریک کی ٹارچ دوسری تحریک کو منتقل ہو رہی ہے۔

The link of this series starting with the Companions, may Allah be pleased with them;

* From Hazrat Umar bin Abdul Aziz, may God bless him and grant him peace  Ibn Taymiyyah, may Allah bless him and grant him peace .

From Hazrat Mujaddid Alf Sani to Sheikh Muhammad bin Abdul Wahab (may Allah bless him and grant him peace).

*Mohammed bin Ali Al-Sanusi movement in North Africa from Sanusi movement to Qutb Shaheed in Egypt.

Jihad in Afghanistan, from the eternal sacrifices of Tehreek Mujahideen

and Tehreek Taliban to the Prophets on the Earth and the most sacred existence of Hamas in the recent battle of truth and falsehood in the First Qibla

and the great story of the determination and independence of Gaza and Palestine and the honor of faith and trust in Allah.

And until martyrdom. 

As if the lamp of one Mujaddid is passing to another Mujaddid, the torch of one movement is being transferred to another movement.


           

سنوسی تحریک کی بنیاد

Foundation of Sanusi movement

The founder of Tehreek Sanusi


 شمالی افریقہ کی سب سے بڑی اور مجاہد سید محمد بن علی السنوسی نے 1937ء میں مکہ مکرمہ میں کوہ صفا پر واقع جبل                      ابی قبیس پر  اپنے سلسلے کا پہلا زاویہ (حلقہ/خانقاہ ) قائم کر  کے رکھی۔تحریک کے مستقبل کے صدر مقام کے لیے لیبیا کے ساحلی  علاقے میں واقع بن غازی شہر انتخاب کیا گیا  جسے بعد میں جغبوب اور پھر کفرہ منتقل کر دیا گیا۔

اس تحریک نے مسلمانوں کی ازسر نو بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔

عرب اور شمالی افریقہ کے ممالک حجاز،مصر،لیبیا،الجزائر،شمالی نائجیریا، چاڈاور جنوب مغربی سوڈان کے تاریخی واقعات پر گہرا ثر ڈالا۔


North Africa's greatest mujahideen, Sayyed Muhammad bin Ali Al-Sunusi, established

the first of his chain of zawi (halqa/khanqah) on Jabal Abi Qubis on Mount Safa in Makkah in 1937.

For the future headquarters of the Movement.

The city of Benghazi on the coast of Libya was chosen, 

which was later moved to Jagbob and then to Kufra. 

This movement played an important role in the reawakening of Muslims. 

The Arab and North African countries of Hejaz, Egypt, Libya, Algeria, Northern Nigeria, 

Chad and Southwest Sudan had a profound impact on the historical events.


بانی سنوسی تحریک


Founder Sanusi Movement 

 بانی تحریک سنوسی سید محمد بن علی السنوسی 1787ء  الجزائر کے شہر مستغانم کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔

آپ  غیر معمولی ذہانت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ حافظ اور فقہ،حدیث و تصوف وغیرہ میں ایک بڑے عا لم تھے ۔

مالکی ہونے کے ساتھ ساتھ اجتہاد کے بھی داعی تھے۔

امام غزالی و  ابن تیمیہ کے افکار سے بھی بہت متاثر تھے۔

وہابی تحریک کے بارے میں بھی نرم گوشہ رکھتے تھے۔

آپ کی تعلیمات شریعت و طریقت کا خوش گوار امتزاج تھیں۔

1818ء میں آپ نے فریضہ حج ادا کیا۔

                                      1859ء میں وفات پائ

Seyyed Muhammad bin Ali

The founder of Tehreek Sanusi, Seyyed Muhammad bin Ali

Al-Sansui, was born in 1787 in a village in the city of  Mostaghanem, 

Algeria.

Besides being the owner of extraordinary intelligence, he was a great scholar in Hafiz and Fiqh, Hadith and Sufism etc.

Along with being a Maliki, he was also a proponent of Ijtihad.  Imam al-Ghazali and Ibn Taymiyyah were also influenced by his thoughts.

He also had a soft spot for the Wahhabi movement.

His teachings were a happy blend of Shariah and Tariqat.

He performed Hajj in 1818.

Died in 1859

 

سنوسی تحریک کا پس منظر


Background of Sanusi movement 

 ٭              افریقہ کے قبائل بت پرستی میں مبتلا تھے

٭ہر جگہ کثیر تعداد میں  علماومشائج، پیرومرشدموجود لیکن غیرت ایمانی کا فقدان اور فرائص سے غافل۔

٭مردہ ضمیراور لذتوں کے پجاری۔

٭امراء و سلاطین موجود لیکن آئے روز کوئ نہ کوئ ملک مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے۔

٭اخلاقی انحطاط،رہزنی و جرائم کا دور دورہ۔

٭سلطنت عثمانیہ روبہ زوال اور موت و حیات کی کشمکش ہیں۔

٭الجزائر اور تیونس پر فرانس کا قبصہ۔

٭طرابلس پر اٹلی کا بڑھتا ہوا تسلط۔

٭مصر پر برطانیہ کی حکمرانی۔


The tribes of Africa were suffering from idolatry

Everywhere there are a large number of scholars and scholars, followers of the sages, but lack of honor and faith and are oblivious to customs.

Priests of dead conscience and pleasures.

There are princes and sultans, but every day some country is being taken out of the hands of Muslims.

* Moral degradation, espionage and crimes.

The Ottoman Empire is in the process of decline and life and death struggle.

France's occupation of Algeria and Tunisia.

* The increasing dominance of Italy over Tripoli.

British rule over Egypt

 

سنوسی تحریک کا بنیادی مقصد


The main objective of Sanusi movement 

 ٭مسلمانوں کی اصلاح ۔ 

٭فرنگی استعمار کی مدافعت۔

٭اسلام کی اشاعت و تبلیغ۔

سنوسی تحریک اور قائدین

 

 عہد بعہد۔

سنوسی کبیر سید محمد بن علی السنوسی(1859ء-1787ء)۔

1859ء میں بانی تحریک کی وفات تک زاویوں کی تعداد22تھی جو 1922ء  میں 300 ہو گئ۔

ہر زاویہ اقتصادی لحاز سے خودکفیل تھا۔

٭یہ زاویے دینی و سماجی مر کز ہوتے جو درج ذیل امور کی خدمات پیش کرتے۔

 

٭قرآن مجید اور معمولی

reading and writing

 

کی تعلیم ۔

٭زراعت،باغبانی،پارچہ بافی

)textile manufacturing(

اور نجاری

      )Carpentry(

 

٭عسکری تربیت۔

٭تبلیغ و اشاعت اسلام۔

تحریک کے اثرات

     ٭لاکھوں ملحد حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔

     ٭مسلمانوں کی اخلاقی حالت سدھر گئی رہزن و جرائم پیشہ   اقوام کے مسکن امن و سلامتی کا گہوارہ بن گئے۔

     ٭پیروں کاروں میں احیائے اسلام کا جذبہ ،عالمگیر اخوت کا داعیہ اور ملک کی عزت و آبرو کے لیے دل و جان سے قربانی کا حوصلہ پیدا ہوا۔

     ٭اخوان المسلمین کی طرح سنوسی ایک ہی وقت میں مبلغ،معلم،کسان اور مجاہد تھے۔  

سید محمد المہدی السنوسی

     1859ءمیں سنوسی کبیر کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے سید محمد المہدی السنوسی کی قیادت میں تحریک کے کام میں بہت وسعت آئی  اور سنوسی اخوان کی تعداد 40 لاکھ تک پہنچ گئی شمالی افریقہ کے ہر علاقے میں دعوت پہنچی اور زاویے قائم ہوئے ۔

     اس زمانے میں صحرائے اعظم کفرہ کے کتب خانے میں مختلف علوم کی 8000 کتابیں تھیں۔

     صحرائے اعظم(sahara desert)سے چوری،قتل و غارت اور دوسرے جرائم ختم ہو گئے ۔

     سیاہ فام حبشیوں میں اسلام پھیلہ۔

     فوجی تربیت و جنگی مشکوں کا اہتمام بھی کیا جس سے وہ وسیع و عریض صحرائی سلاطنت کے حکمران بن گئے۔

سید احمد الشریف السنوسی

 1902ء میں  سید محمد المہدی السنوسی کی وفات کے بعد سید احمد شریف  السنوسی جماعت کے تیسرے امیر مقرر ہوئے ۔

المہدی کے انتقال کے وقت ان کے صاحب  زادے سید محمدادریس المہدی عمر  صرف 12 برس تھی۔

سنوسی لیبیا کی صحرائی زندگی پر چھائے ہوئے تھے لیکن لیبیا انتظامی لحاظ سے عثمانی سلطنت کا ایک حصہ تھا۔

خلد منت عثمانیہ کے حصے بخرے کرنا  استعماری ایجنڈا تھا  جس کے لیے استعمار نے عرب نیشنلزم کو خوب ہوا دی۔

ان استعماری سازشوںپر سنوسی بہت مضطرب تھے اور انہوں نے فرانس دائل کی لیبیا و خلافت  عثمانیہ کے خلاف یلغار کے موقع پر ترکوں کا ساتھ دیا۔

 

سنوسی اور خلافت عثمانیہ

          عربوں اور ترکوں  کی نسلی کشمکش کے تناظ میں استعمار کو  امید تھی کہ لیبیا  کے باشندے اس کا خیر مقدم کریں گے لیکن اسلامی رشتہ اخوت کے تحت امیر تحریک سید احمد شریف السنوسی نے عرب قوم پر ستوں کے مقابلے میں خلافت عثمانیہ کی حمایت و نصرت کرتے رہے اور لیبیا کے باشندوں نے سنوسی قیادت میں قدم قدم پر ترکوں کی بھر پور مدد کی اور استعمار کے خلاف جہاد بلند کیا ۔

 

اقبال اور سنوسی

           اقبال نے سنوسیوں کے قابل فخر کردار و عمل کی یوں مدح کی ہے۔

           کیا خوب امیر فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا۔

                                                    تو نام و نشب کا حجازی ہے

پر دل کا حجازی بن نہ سکا۔                                                                                                             

تحریک سنوسی اور داخلی مسائل

          تحریک و دعوت میں تو وسعت ہوئی لیکن تحریک میں داخل سائل جنم لیتے رہے 1916ء کے  مشکل وقت میں المہدی کے بیٹے سید محمد  ادریس السنوسی نے قیادت کا تنازع کڑا کر دیا اور تحریک کی فعال ذمہ داریوں سے سید احمد الشریف سبکدوش ہو گئے اور انتہائی بے بسی کے عالم میں ترکی،بیروت،یرویشلم اور مدینہ منورہ سے ہوتے ہوئے مصر پہنچے۔

ادھر 1922ء میں سنوسی اخوان کو مخدوش حالات میں چھورتے ہوئے سید محمد ادریس کو بھی مصر میں پناہ لینا پڑی۔

غازی عمر المختار

 

           اس منظر نا مے میں ایک طلسمانی شخصیت کے حامل  بہادر جرنیل غازی عمر المختار نے ملٹری کمانڈ خود سنبھال لی  کر برطانوی و اطالوی نو آبادیاتی نظام کے خلاف کم و  بیش  20 سال تک لڑا۔جس کے عزم و استقلال کی گواہی پر آسمان بھی جھوم اٹھتا ہے۔یہ ستر پچھتر  سالہ بوڑھا مرد مجاہد بارہا اپنے سے کئی  گنا بڑے اور جدید ہتھیاروں سے لیس استعمار کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر اس کا غرور خاک میں ملاتا رہا۔

           آج بھی طرابلس کی سب سے بڑی شاہراہ اس عظیم اور غیرت مند مجاہد کے نام پر شاہراہ عمر مختار کہلاتی ہے۔

           بلا شبہ عمر  المختار کو مشہور اسلامی سپہ ساروں موسی بن نصیر،طارق بن زیاد،محمد بن قاسم،صلاح الدین ایوبی اورعقبی بن نافع کی صف میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

           وہ عقبی بن نافع۔

 

اطالوی فوج کی دہشتگردی و ظلم و ستم

           استعمار نے دہشتگردی و درندگی کی انتہا کردی۔

           اسی طرح کی سنگدلی و بے رحمی آج ہم فلسطین و غزہ پر اسرائیلی شیطانیت کی صورت میں دیکھتے ہیں۔

           استعمار نے مسلمانوں کی جائیدادیں ضبط کر لیں،زاویے ڈھا دیئے گئے کنویں پاٹ دیئے  گئے تا کہ مجاہد صحرا میں پیاس سے مر جائیں۔

           ہزاروں لوگوں کو قید کر کے بھوک و پیاس سے تڑپا ترپا کر موت کے منہ میں دھکیل دیا اور یوں 1933ء میں مسلح مزاحمت کچل دی گئی۔

لیبیا  کی آزادی

     مسلح مزاحمت کے ختم ہونے کے باوجود سیاسی و سماجی تحریک جاری و ساری رہی  جو با لآخر 24 دسمبر 1951ء کو ایک آزاد اور خود مختار ملک لیبیا کی صورت میں  بار آور ثابت ہوئی اور سید محمد ادیس اس  کے سر براہ بنے جنہوں نے اپنے عہدے کو آئینی بادشاہت میں بدل دیا جیسے یکم ستمبر 1969ء کو فوبی سربراہ  کرنل محمد قذافی نے بغاوت کر کے بادشاہت کا تختہ الٹ دیا اور لیبیا کو جمہوریہ اسلامیہ لیبیا قراردیا

اختتامی

          مصر،تیونس اور لیبیا کی عوام نے استعمار اور اس کے ایجنٹوں کے خلاف ایک جنگ جیت لی ہے۔

          تاریخ کا یہ سفر لمححوں میں طے نہیں ہوا بلکہ صدیوں پر مشتمل یہ ایک تاریخی عمل ہے۔

اعتراضات

         1:  تحریک کی فکری پیچیدگی ۔

         2:  مذہبی  انتہا پسندی کا مرکز۔

         3:  تحریک نے سیاست مے مداخلت کی جو معاشرتی اصلاح کو متا ثر کرتی ہے۔

         4:  قبیلہ و قوم پرستی کا گروع۔

         5:  اجتماعی فاصلہ برھانے والی تحریک۔

         6:دھاندلیوں کا الزام ۔

         7:موروثیت  کا الزام۔

 

Post a Comment

0 Comments